ابن فہد حلی رحمه‌الله

ابن فہد حلی رحمه‌الله

 

ابن فہد حلی

 

ولادت


جمال الدین، ابو العباس، احمد بن محمد بن فہد اسدی حلی سنہ 757 ہجری قمری کو پیدا ہوئے ۔


علمی منزلت


علامہ ابن فہد حلی آٹھویں اور نویں صدی ہجری قمری کے علماء امامیہ کے عظیم فقیہ و مجتہد اور ظاہری اور باطنی جامع کمالات کے مالک تھے ، علم و عمل سے سرشار اور عقلی و نقلی معارف سے مالا مال تھے ، آپ کے باطنی حالات کی شناخت و معرفت آپ کے باقیماندہ آثار اور تالیفات ہیں جو آپ کے باطنی اور معنوی مقامات کی حکایت کرتے ہیں۔
اگر چہ علامہ ابن فہد حلی کی مختلف علوم منجملہ فقہ و تاریخ اور کلام اور اس کےعلاوہ دوسرے بہت سے موضوعات پر آپ کی تالیفات موجود ہیں لیکن آپ کانام نامی عرفان ، سیر و سلوک اور زہد وتقوی میں میں زبان زد خاص و عام ہے اور جب بھی سیرو سلوک اور زہد و تقوی کا نام لیا جاتا تھا تو لوگو ں کی توجہ آپ کی طرف ہی جاتی تھی لہذا آپ زيادہ تر انہیں صفات سے مشہور ہیں اور آپ کی کتابوں کو دیکھ کر پہلی ہی نظر میں لوگ آپ کی جانب متوجہ ہوجاتے ہیں۔


آپ کے بارے میں بزرگان دین کا نظریہ


صاحب روضات الجناۃ فی اَحوالِ العُلماء و السادات علامہ سید محمدباقر خوانساری آپ کے زندگي نامہ میں تحریر کرتے ہیں : جمال الدین، ابو العباس، احمد بن شمس الدین محمد بن فہد اسدی حلی بہت بڑے عالم دین ، عارف کامل اورفضائل و کمالات کے راز و رموز کو ظاہر کرنے والے تھے، آپ شہرت اور معتمد ہونے کی بناء پر تعریف و توصیف کے محتاج نہیں تھے ،آپ معقولات و منقولات ، فروع ،ظاہری و باطنی اصول اور علم و عمل میں یکتائے روزگار تھے ،آپ شہید اول اور فخرالمحققین کے خاص شاگرد تھے۔


اہل سنت سے مظاہرہ


علامہ ابن فہد حلی میدان مناظرہ میں بہترین علمی مہارت اور بھرپور توانائی رکھتے تھے اور فقہ اہل سنت کے بہت سے پیروی کرنے والوں سے مختلف موضوعات پرخصوصا مسئلہ امامت و رہبری کے بارے میں زبردست گفتگو کی اور اہل سنت کے بے شمار علماء پر اپنی عالمانہ گفتگو سے فوقیت و برتری حاصل کی۔
علامہ ابن فہد حلی نے حاکم عراق اور اس کے مذہب کے ماننے والے دانشوروں کے ساتھ جو مناظرہ کیا تھا اس میں آپ نے ان کے دلائل کو رد کرکے مذہب تشیع کی حقانیت کو ثابت کردیا تھا۔
علامہ ابن فہد حلی کی معتبر و مستحکم دلیلوں کو سن کر حاکم عراق پر بھی کافی اثرات مرتب ہوئے اور انہوں نے اپنے مذہب کو چھوڑ کر مذہب تشیع کو اختیار کرلیا اور اہل بیت طاہرین علیہم السلام کے ماننے والوں کی فہرست میں شامل ہوگیا اور اپنے خطبہ میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اور آپ کی پاکیزہ اولاد کے فضائل و کمالات کو بیان کیا ہے اورپھر امیرالمومنین علیہ السلام کے شیعوں کے زمرے میں شامل ہوگیا ۔


آپ کے اساتذہ


آپ کے بزرگ فقہ و احادیث کے استاد یہ تھے۔
۱ - فاضل مقداد سيورى‏ ۔
۲ - شيخ على بن خازن فقيه حائرى۔
۳ - سيد بهاء الدين على بن عبد الكريم نيلى‏۔
۴ - ابن متوج بحرانى و...

آپ کے شاگرد


علامہ ابن فهد حلى کی نورانی آغوش تربیت میں پروان چڑھنے والے افراد :
۱ - شيخ على بن هلال جزائرى‏۔
۲ - فقيه نامى شيعه، ابن العشرة كروانى عاملى‏۔
۳ - شيخ على بن عبد العالى كركى‏۔
۴ - شيخ عبد السميع حلى، (صاحب كتاب تحفة الطالبين في أصول الدين)
۵ - سيد محمد بن فلاح موسوى‏۔
۶ - شيخ محمد بن طى عاملى، (مؤلف كتاب مسائل ابن طى‏)


آپ کی تأليفات‏


1۔ آداب الداعي‏۲
-2 استخراج الحوادث و بعض الوقايع المستقبلة من كلام أمير المؤمنين عليه‌السلام فيما أنشأه في صفين بعد شهادة عمار بن ياسر۔
اس کتاب میں علوم غریبہ کے بعض اسرار و رموز جیسے چنگیز کا خارج ہونا اور اسماعیل صفوی کا وارد ہونا ، امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے معجزانہ کلام بلاغت سے استخراج کیا گیا ہے۔
۳ ۔ أسرار الصلاة۔
۴ ۔ تاريخ الائمہ عليهم‌السلام۔
۵۔ التحرير در فقه‏۔
۶ ۔ التحصين في صفات العارفين من العزلة و الخمول بالأسانيد المتلقاة عن آل الرسول عليهم‌السلام.
۷ ۔ ترجمة الصلاة، معانى، اقوال، افعال اور نماز کے فوائد (کے بیان میں)
۸ ۔ تعيين ساعات الليل و تشخيصها بمنازل القمر.
۹۔ عدة الداعي و نجاح الساعي‏.
۱۰ ۔ مصباح المبتدي و هداية المهتدي‏.
۱۱ ۔ المقتصر في شرح إرشاد الأذهان‏.
۱۲ ۔ الموجز الهادي‏.
۱۳ ۔ المهذب البارع في شرح المختصر النافع‏.
۱۴۔ الموجز الحاوي‏.
اور بےشمار کتابیں اور مقالے وغیرہ


آپ کی وفات


علامہ ابن فہد حلی علیہ الرحمہ نے ایک بابرکت اور علم و عمل سے سرشار زندگی کو اپنے معشوق و معبود کی راہ میں بسر کرنے کے بعد سنہ 841 ہجری قمری میں 84 برس کی میں کربلائے معلی میں معبود حقیقی کی آواز پر لبیک کہا ،آپ کی قبر اطہر خیمہ گاہ حسینی کے قریب میں واقع ہے ۔
خدا رحمت نازل کرے اور آپ کی قبر پر نورافشانی کرے ۔

ہماری کتابیں
k