بخش‌ها:

شرح دعائے کمیل - اللَّهُمَ‏ اغْفِرْ لِيَ‏ الذُّنُوبَ‏ الَّتِي تَهْتِكُ الْعِصَم‏

شرح دعائے کمیل - اللَّهُمَ‏ اغْفِرْ لِيَ‏ الذُّنُوبَ‏ الَّتِي تَهْتِكُ الْعِصَم‏

 

اللَّهُمَ‏ اغْفِرْ لِيَ‏ الذُّنُوبَ‏ الَّتِي تَهْتِكُ الْعِصَم‏ 

"خدایا میرے وہ تمام  گناہ بخش دے جو ناموس میں بٹہ لگاتے ہیں۔ "  

 

وہ گناہ جو پردہ عصمت کو چاک کردیتے ہیں ؟
امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام خداوندعالم سے توسل کرنے کے بعد اور خداوندعالم کو اس کے بعض صفات اور اسماء حسنی کے ذریعے قسم دیتے ہیں پھر اپنی سب سے پہلی آرزو یعنی دعاؤں کے کچھ فقروں کے ذریعے اس کی بارگاہ میں طلب مغفرت کرتے ہیں۔
یہ وہی روش ہے جسے ائمہ ہدی علیہم السلام نے اپنی اکثر مناجاتوں میں اپنایا ہے اور ہر چیز سے پہلےخداوندعالم سے عفو و بخشش طلب کیا ہے ۔ اسی طرح سے اگر دعائے شب عرفہ" اللھم یا شاھد کل نجوی ۔۔۔۔( اے خدا اے شاہد اسرار جہاں) پڑھنے کی توفیق حاصل ہوئی ہوگی توآپ نے ضرور مشاہدہ کیا ہوگا کہ دعا کرنے والا خداوند عالم کو کس قدر تمام مقدسات کی قسم دے رہا ہے اور کس قدر تمام انبیاء اور اولیاء الہی کو وسیلہ قرار دیا ہے اور اسی طرح سے تمام عالم ملکوت اور آسمانی کتابوں کوبھی وسیلہ قرار دیا ہے کہ جس نے ہر پڑھنے اور سننے والے کو مبہوت کردیا اور یہ سوچنے پر محبور کردیا ہے کہ آخر دعاکرنے والا اس قدر توسلات کے ذریعے خداوندعالم سے کیا چاہتا ہے ؟ اور پھر ہر ایک سے توسل کرنے کے بعد آخرمیں عرض کرتا ہے : "اَسئَلُكَ بِحَقِّ ھذِہ الأسماءِ ، وَ بِھذِہِ الدَعَواتِ اَن تَغفِرَ لَنا ما قَدَّمنَا وَ ما أخَّرنا وَ ما آسرَرنا" "میں تجھ سے ان ناموں کے ذریعے سوال کرتا ہوں کہ تو میرے گذشتہ اور آئندہ گناہوں کوپوشیدہ اور ظاہراور واضح اور مخفی گناہوں کو بخش دے ۔"


اور یہ خود دعا کرنے والے کے لئے ایسی تعلیمات ہیں جس نے سب سے پہلے اپنی خواہشات و آرزؤں کی بنیاد اسی امر پر استوار کرے ، کیونکہ اگر حقیقت میں کوئی شخص خود کو پہلے ہی مرحلے میں خداوندعالم سے تقرب و قربت کے لئے آراستہ نہ کرے تو سزاوار نہیں ہے کہ اس کی بارگاہ میں دوسری دعائیں کریں۔


البتہ ان دعاؤں سے مشابہت رکھنے والے فقروں میں جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہونا چاہیئے کہ کلی طور پر ہر عمل وکردار چاہے وہ اچھا ہو یا خراب وہ اپنا ایک ذاتی اثر رکھتا ہے جو عمل کرنے والے کو اس کے عواقب کی جانب متوجہ کرتا ہے اور یہاں پر امام علیہ السلام کے بیانات اسی جانب متوجہ کررہے ہیں کہ ہر گناہ انسان کی زندگی میں الگ الگ طریقے سے اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں جو کبھی کبھی تو کلی طور پر انسان کو اخلاقی فوائد سے روک کر اس سے سعادت و کامرانی کو سلب کرلیتے ہیں ۔ جیسا کہ امام علیہ السلام اپنی سب سے پہلی دعا میں بارگاہ خداوندی میں عرض کرتے ہیں: خدایا ہماری ان گناہوں کو معاف کردے جو انسانیت کے حدود و قیود کی حفاظت سے روک دیتے ہیں چونکہ عصمت کے معنی برے کاموں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے جیسا کہ پروردگار عالم نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پیغام رسالت دیتے ہوئے فرمایا ہے: وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ " اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا ۔ "( سورہ مائدہ آیت نمبر 67)


اسی وجہ سے انبیاء کرام اور اولیا ء الہی کو معصوم کہا جاتا ہے چونکہ جو روحانی حالت ان کے اندر موجود ہے یعنی وہ پاکیزہ جوہر اور مقدس گوہر جو پروردگارعالم نے انہیں کرامت کے طور پر عطا کیا ہے جس کی وجہ سے وہ ہر برے غیرشائستہ کام اور ہر طرح کی غلطی و خطا سے محفوظ رہتے ہیں اور خود برائیوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتے ہوئے ان برائیوں کا علم رکھنے کی وجہ سے گناہوں کے مرتکب نہیں ہوتے ہیں اور اگر کبھی اپنی دعاؤں میں گناہوں کے اقرار کے متعلق گفتگو کی ہے تو یہ اسی ترک اولی کی طرح سے ہے ۔


بہرحال امام علیہ السلام اس بات کا علم رکھتے ہوئے کہ بعض گناہ پردہ عصمت کو چاک کردیتے ہیں اور خواہشات نفسانی کی حفاظت کرنے سے روک دیتے ہیں اور انسان کو دوسرے گناہوں کی طرف کھینچ کر لے جاتے ہیں لہذا ان گناہوں سے عفو و بخشش طلب کرتےہیں۔


شاید امام علیہ السلام انسانوں کو یہ اہم نورانی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اہل ایمان کو چاہیئے کہ کبھی بھی ایسے گناہوں کے مرتکب نہ ہوں جوعصمت و عفت کے پردوں کو چاک کردیتے ہیں، اسی طرح سے ایک روایت میں فرزند رسول حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتےہیں: وہ گناہ جو پردہ عصمت کو چاک کردیتے ہیں یہ ہیں: شراب نوشی، یعنی ہر طرح کے ایسے مشروبات کا پینا جو نشہ آور ہوں۔ لہو ولعب پر مشتمل امور انجام دینا ،یعنی قمار بازي اور ایسے انواع و اقسام کے کام انجام دینا جسے پروردگارعالم نے شیطانی کام سے تعبیر کیا ہے۔اسی طرح سے ایسے امور کو انجام دینا جو مضحکہ خيز اور بیہودہ ہنسی مذاق پر مشتمل ہویعنی حد سے زيادہ ہنسی و مذاق اور شوخی کرنا ، ایک دوسرے کا مذاق اڑانا اور دوسروں کی خوشامدو چاپلوسی وغیرہ کرنا۔ اسی طرح سے ایک دوسرے کے عیوب بیان کرنا اور کفار و مشرکین اور فاسق و فاجر افراد کی مجلسوں اور نشستوں میں بیٹھنا ۔


گویا یہ روایت خود قرآن کریم کی آیت سے ماخوذ ہوئی ہے جیسا کہ پروردگار عالم سورہ مائدہ کی آیت نمبر نوے میں ارشاد فرماتا ہے: " يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ"
" ایمان والو !شراب، جوا ,بت ,پانسہ یہ سب گندے شیطانی اعمال ہیں لہذا ان سے پرہیز کرو تاکہ کامیابی حاصل کر سکو"


البتہ اس آیت شریفہ کی بہت زیادہ تفسیریں بیان ہوئی ہیں اور یہ بہت سی ان آیتوں سے مربوط ہے جن میں ان امور کو صراحت کے ساتھ حرام قرار دیا گیا ہے اور دعائے کمیل کے اس فقرے " اللھم اغفر لی الذنوب التی تھتک العصم" پر غور کرنے کے بعد ضروری ہے کہ اس طرح درخواست کی جائے کہ : "خدایا ہمیں ان گناہوں سے محفوظ رکھ جو عصمت و عفت کے پردوں کو پارہ پارہ کردیتے ہیں اور جن گناہوں کے ہم مرتکب ہوئے ہیں انہيں معاف فرمادے۔


( کتاب علی علیہ السلام و کمیل، شرح دعائے کمیل، احمد زمردیان ، صفحہ 48)

 

ہماری کتابیں
k