بخش‌ها:

زیارت کا فلسفہ

زیارت کا فلسفه

مولف: علی محمد بروجردی

پیش لفظ


زیارت: یعنی معشوق کے دیار میں عاشق کی والہانہ اور عارفانہ حاضری ، محب کا محبوب سے اپنے عشق و محبت کا اظہار ، حریم یار میں دل کا نذرانہ پیش کرکے آقا و سردار کے سامنے سپاہی کا سرتسلیم خم کرنااور صاحبان دین کے سامنے خاضعانہ و خاشعانہ اپنے دین کا اظہار کرنا ۔
زیارت: یعنی فرش خاک پر رہنے والے بندہ ناچیز کا عرش اعلی پر رہنے والے مکین کی جانب سفرکرنا ہے جس کا سلسلہ دل سے شروع ہوتا ہے ،زيارت یعنی دل کو اپنے آقا و مولا کی بارگاہ میں سپرد کرکے عرش الہی پر مسکن بنانے کا نام ہے اور زائر صعوبتوں سے بھرے اپنے سفر کا آغاز اپنے محبوب و معشوق کو مخلصانہ سلام کا تحفہ پیش کرکے اپنے دل و جان کو روحانی و معنوی سکون عطا کرتا ہے۔


زیارت کا فلسفہ


بزرگ اور عظیم انسانوں کی تعظیم و تکریم اور ان کے مرنے کے بعد ان کی یاد میں پروگرام اور سیمینار وغیرہ کا انعقاد کرنا انسان کی فطرت اور سرشت میں شامل ہے اوریہ انسان کی الفت و محبت اور بلندی و کمالات سے اس کی انسیت کا لازمہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ پوری دنیا کی تمام قومیں اور ملتیں اپنی علمی شخصیتوں اور ماہرین علم فن وہنر کے سامنے سر تعظیم خم کرتی ہیں اور ان کی یاد میں جلسے، سیمیناراور کانفرنسز کا انعقاد کرکے ان کو خراج عقیدت پیش کرتی ہیں البتہ یہ بھی فطری امر ہے کہ اس طرح کے پروگرام منعقد کرنے میں کیفیت و مقدار میں قوموں کے درمیان اختلافی پہلو ضرور نظر آتا ہےلیکن جو چیز سب سے اہم ہے وہ " تعظیم و تکریم" میں فطری اعتبار کا ہونا ہے یہی وجہ ہے کہ مختلف انسانی معاشرے میں نیک و عظیم لوگوں کے آثار کی حفاظت اور ان کی باقیماندہ میراث کی حفاظت میں انسان مال و دولت اور اپنے زيادہ سے زیادہ سرمائے کو خرچ کرتا ہے تاکہ بزرگوں کی یاد میں پروگرام منعقد کرکے اس ثواب میں خود کو شریک کرلیں اور یہ تمام امور انسان کے کمالات سے الفت و محبت رکھنے کی وجہ سے ہے، ہر انسان اپنی باطنی کشش اور انسیت کی بناء پر فضل و کمال سے عشق کرتا ہے اور کمالات کے مظاہر کو پسندکرتا ہے اور اس کے مقابلے میں تواضع و انکساری کا مظاہرہ کرتا ہے۔
پوری تاریخ میں جہاں پر بھی نیک و صالح افراد کا تذکرہ ہوتا ہے وہیں پر مرتدوں اور فاسقوں کا ذکر بھی ملتا ہے جو اپنے دورحیات میں نقش آفریں کردار ادا کرتے ہيں لیکن مرنے کے بعد ان کا نام و نشان دفن ہوکر رہ جاتا ہے یہاں تک کہ اگر کوئی شخص ان کا نام سیاسی یا اقتصادی اہداف و مقاصد کے لئے بھی لیتا ہے تو اس کا تذکرہ پانی پر بہتے ہوئےجھاگ کی طرح ہوتا ہے جو بڑی تیزی کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے اور بہت ہی جلدلوگ اسے فراموش کردیتے ہیں۔
اس بے ثباتی اور نام و نشان کے خاتمے کی اصل وجہ ان افراد کا انسان و انسانیت سے الفت و محبت نہ رکھنا ہے ۔ درحقیقت انسان کے ضمیر کا بیدار ہونا حقانیت اور ان کا خواب غفلت میں پڑے رہنا باطل کی علامت ہے جب کہ حق ہمیشہ ایک دوسرے سے متصل رہتا ہے اور باطل ہمیشہ لوگوں سے منقطع اور جدا ہوجاتا ہے اگر چہ تمام اہل باطل غیرخدا کی طرف دعوت دینےمیں مشترک ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک لوگوں کو اپنی طرف دعوت دیتے ہیں اور دوسروں کو قبول نہیں کرتے ہیں۔
مگر نیک و صالح اور سالکان راہ حق کے دل ایک ہی ہیں کیونکہ ان سب کا محور ومقصد انسانی کمالات تک پہنچنا ہے اور ان کے درمیان چودہ نورانی و پاکیزہ انوار الہی ،تجلی صفات ، فضل خدا اور نقیبان عالم ہیں کہ جن کے فضائل و مناقب کا ذکر اور ان ذوات مقدسہ کی زيارت خداشناسی ، توحید، حصول معارف اورعرفانی مدارج کو طے کرنے کے لئے بہترین ذریعہ ہے ۔


زيارت کے معنی


زیارت کلمہ " زور" سے مشتق ہے جس کے معنی رغبت اور عدول کے معنی میں ہیں اور دین کی تعبیر کے مطابق جھوٹ کو بھی " زور " کہا گیا ہے کیونکہ جھوٹا انسان باطل کی طرف میلان و رغبت اور حق سے انحراف کرتا ہے اور زائر کو اس لئے زائر کہا جاتا ہے کیونکہ غیر مزور سے روگردانی کرتا ہے لیکن صاحب مصباح المنیر نے زيارت کے معنی قصد بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ : عرف عام میں زیارت کے معنی صاحب زيارت کی تعظیم و انسیت کا ارادہ و قصد کرنا ہے اوراگر ان تمام امور کے درمیان پائے جانے والے معانی کو جمع کیا جائے توزیارت کے معنی یہ ہوں گے " زائر کا عاشقانہ اور والہانہ طور سے صاحب زيارت کے پاس انس و محبت کی خاطر حاضر ہونا اور غیرسے روگردانی کرنا ہے۔ "
قرآن کریم میں صرف ایک مقام پر اس لفظ کااستعمال ہوا ہے ارشاد قدرت ہوتا ہے " حتی زرتم المقابر" یہاں تک کہ تم نے قبروں سے ملاقات کر لی" ( سورہ تکاثر آیت نمبر 2)۔
اس آیت کریمہ کے شان نزول میں آیا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ایک قبیلہ تھا جس کے لوگ آپس میں ایک دوسرے پر فخر و مباہات کرتے تھے اور اپنے مال و دولت کی زيادتی پر خوشی سے پھولے نہيں سماتے تھے اور اس فخر و مباحات کی ارتقاء کے لئے قبرستان جایا کرتے تھے اور اپنے مرنے والوں کی قبروں کو شمار کرتے تھے۔
اس بناء پر اب تک جو کچھ بھی بیان کیا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ زيارت عاشق و معشوق کے درمیان پائے جانے والےقلبی رابطے کا نام ہے وہ بھی ایسا رابطہ جو آگاہی اور معرفت کے ساتھ ہو البتہ زيارت کا اشتیاق رکھنے والے کے لئے نہ صرف یہ کہ محبوب بہت ہی پسند وجاذب ہے بلکہ جتنا زيادہ اس سے نسبت ہوگی اتنا ہی زیادہ وہ اسے محبوب ہوگا ۔
یہی وجہ ہے کہ پیغمبران الہی اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی قبریں مشتاقان زیارت کی بوسہ گاہ ہیں اور درحقیقت صاحبان دین کو قبول کرنا دلوں کے متحد ہونے ،ان کے جمع ہونے اور ایک مقصد یعنی" بندگی خدا " تک پہنچنے اور " لقاء الہی " تک رسائی کی اعلی ترین جگہ ہے اور علامہ امینی علیہ الرحمہ کے بقول :
" اگر مدینہ منورہ کو حرم الہی شمار کیا گیا ہے اور سنت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں مدینہ منورہ ، اس کی خاک،اس کے اہل اور اس میں دفن ہونے والوں کی بہت زيادہ اہمیت و فضیلت بیان کی گئی ہے تو یہ عظمت و اہمیت خداوندعالم اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منتسب ہونے کی وجہ سے ہے اور اسی بنیاد پر ہر وہ چیز جو کسی بھی اعتبار اور انتساب کی وجہ سے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اوصیاء الہی سے وابستہ ہو گی وہ قابل عظمت و شرافت ہوگی ۔


زيارت : محبت کی علامت اور قلبی وابستگی کی ترجمان ہے ۔


عاشق کے لئے ہر وہ چیز جو اس کے معشوق سے مربوط ہوتی ہے وہ اس کے لئے خوبصورت اور ولولہ انگیز ہوتی ہے، اس کے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ گھر ہو یا گلی ، شہر ہو یا اس کے در و دیوار ، اس کالباس ہو یا جوتا ہو عاشق کے لئے تمام چيزیں محبوب ہوتی ہیں۔
مرحوم علامہ امینی علیہ الرحمہ نقل کرتے ہیں: کہ اہل سنت کے ایک معتبر فقیہ و ادیب تاج الدین فاکہانی ( وفات 734 ہجری قمری) پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جوتے کی زیارت کی غرض سے دمشق کے دارالحدیث الا شرفیہ گئے اورجیسے ہی ان کی نظرجوتے پرپڑی فورا ہی اس کا بوسہ لینے لگے اور گریہ کرتے کرتے اس بارے میں اشعار کہہ ڈالا کہ اگر مجنوں سے کہاجائے کہ لیلی اور اس کا وصال چاہیئے یا پوری دنیا چاہئیے تو وہ جواب میں ضرور یہی کہے گا کہ دنیا اور اس میں موجود تمام چیزوں سے بہتر اور محبوب لیلی کے جوتے کے گرد و غبار ہیں ۔
جی ہاں، جب عشق کا نام درمیان میں آجائے تو معشوق کے راستے کی خاک کو سرمہ بنا لینا چاہیئے ۔
یہ تمام امور سکہ کا ایک رخ ہیں لیکن سکہ کا یہ رخ ہم سے کہتا ہے کہ زيارت ، خود معرفت کی زيادتی کا سبب ہے یعنی زيارت معرفت کے لئے معلول بھی ہے اور معرفت کے دوبرابر ہونے کا سبب اور عشق حقیقی کے لئے علت بھی ہے ، اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ زیارت وجود کو کیمیا کرتی ہے البتہ اس بات پر یقین رکھنا چاہیئے کہ زائر کا مقصد صرف آئینہ کی طرح حاضر ہونا ہی نہیں ہے بلکہ دیدہ دل سے مشاہدہ کرنا چاہیئے یعنی اپنے وجود کو صاحب زيارت کے سامنے حاضر کردے تاکہ حقیقی خوبصورتی اور اس کے نورانی جمال کو دریافت کرلے اور یہ وہی معرفت ہے کہ جسے ہم زیارت جامعہ کے آخر میں تلاوت کرکے خداوندعالم سے درخواست کرتے ہیں " اسئلک ان تدخلنی فی جملۃ العارفین بھم و بحقھم وفی زمرۃ المرحومین بشفاعتھم یا ارحم الراحمین ۔" " میں سوال کرتا ہوں کہ مجھ کو ان کے پہچاننے والوں میں قرار دے اور ان کے حق کے پہچاننے والوں میں اور ا ن کے گروہ میں جو ان کی شفاعت سے رحمت پاچکے ہیں بے شک تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے " ۔
جس وقت ہم عاشقی کے مدار میں قرار پائیں گے یعنی جب اللہ اور اولیاء کی محبت کے احاطے میں وارد ہوگئے تو یہی عوامل ہمارے افعال و کردارمیں خلوص کا سبب قرار پائیں گے۔
زائر اور صاحب زيارت کے درمیان دوطرفہ رابطہ پایاجاتا ہے جب صاحب زيارت زائر کے خیال میں ہوتا ہے تو زائر بھی صاحب زیارت کی فکر میں رہتا ہے پس اللہ کی طرف توجہ کرکے نورسے روشنی حاصل کرتا ہے اور میرے سلام کا جواب دیتا ہے اور ہمیں اپنی خاص عنایت میں قرار دیتا ہے جیسا کہ ہم اذن دخول میں پڑھتے ہیں" اشھد ان تسمع کلامی و ترد سلامی " اور یہی دوطرفہ محبت زائر کی روح کو بالیدگی اور پاکیزگی و بلندی عطا کرتی ہے جس وقت زائر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کے سلام کا جواب مل گیا ہے تو وہ خود کو ولی الہی کے فیض کا مہمان تصور کرتا ہے اور معنویت کے دسترخوان پر بیٹھتا ہے اور جو کچھ بھی اس دسترخوان سے زائر لذتیں حاصل کرتا ہے وہ قابل بیان نہیں ہوتی ہیں ، اب کاغذ و قلم کے اندر اتنی قوت و جرات نہیں پائی جاتی ہے کہ وہ اس توصیف کو بیان کرسکے بلکہ اس کو دیکھنا ،محسوس کرنا اور اس کے ذا‏ئقہ کو چکھنا ضروری ہے اور ااس کے لئےورق بن جانا چاہیئے اگر ہمارے ہمدرس ہو تو ایسا نہیں ہے کہ علم کا عشق، کاپی میں درج نہ ہو۔
بےشک زيارت انسانوں کی روح کی ترقی و ارتقاء کا سبب اور وسائل فراہم کرنے کاک ذریعہ و سیلہ ہے پس شعلہ عشق کو پانے کے لئے ضروری ہے کہ کانون نور سے قریب ہواجائے ۔
ہم اپنی اس تحریر کے آخری حصے کو شہرہ آفاق اور گرانقدر کتاب " جامع السعادات " کے مولف محترم علامہ نراقی علیہ الرحمہ کی تحریر سے مزین کرتے ہیں آپ صاحبان قدسی بالخصوص انبیاء اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی قبور کی زيارت کے اثرات کے بارے میں فرماتے ہيں:
اعلم ان النفوس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذالک بینھم۔


نتیجہ


مندرجہ بالا مطالب سے ہم اس طرح نتیجہ حاصل کرسکتے ہیں کہ زیارت ایک اہم اعمال عبادت کے عنوان سے انسانی فرہنگ و ثقافت کے درمیان ایک خاص اہمیت کی حامل ہے اور اسلامی ثقافت میں بزرگان دین کے ساتھ ایک خاص اور بامقصد رابطہ خدا وندعالم سے تقرب و قربت کا بہترین ذریعہ ہے اور زائر اپنی زیارت میں صاحب زيارت سے تجدید عہد کرتا ہے اور اس طرح سے زيارت اس کی روح کی بلندی و ارتقاء کے لئے زمینہ ساز ہوتی ہے ۔

 

ہماری کتابیں
k