- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: دعا کا ترک کرنا گناہ ہے ۔
- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: سب سے عاجز ترین انسان وہ ہے جو دعا کرنے سے عاجز ہو۔
- رسول اللہؐ صلی الله علیه و آله : شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے پس جس نے بھی میرے مہینے (شعبان) میں روزہ رکھا تو قیامت کے دن ، مَیں اس کا شفیع (شفاعت کرنے والا) ہوں گا۔
- امام صادق علیہ السلام: تمہیں دعا ضرور کرنی چاہیے کیونکہ دعا ہر بیماری سے شفا ہے۔
صحیفہٴ سجادیہ کا مختصر تعارف
صحیفہٴ سجادیہ کا مختصر تعارف
صحیفہٴسجادیہ امام علی عليهالسلام ابن حسین عليهالسلام ابن علی عليهالسلام ابن ابی طالب عليهالسلام کی دعاؤں پر مشتمل ہے۔ یہ دعائیں امام سجاد عليهالسلام کی عظیم روح کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ دعائیں تعظیم، تقدیس الہی، خدا کی حمد، شکر،بارگاہ احدیت میں عاجزی و انکساری، اعتراف گناہ،بندگی میں کوتاہی، خدا کے دائمی لطف کا امید وارہونا اور اس کے بے مثال حسن سے عشق کرنے کا سلیقہ سکھاتی ہیں۔مزیدخداوندمتعال سے خیر و سعادت اور توفیق و ہدایت طلب کرنا،برائی و بدبختی اور غضب وعذاب سے نجات پانا، اور نفس امّارہ ومکار شیطان سے خدا کی پناہ مانگنے کا راستہ انہی دعاؤں میں ملتاہے۔
صحیفے کی طرف رجحان
صحیفہ ٔ سجادیہ کے اعتقادی، اخلاقی، فلسفی، نصیحت آموز اور اجتماعی مضامین نیز اس کے ادبی و
بلاغی بیان نے اسے دیگر دینی کتابوں میں ایک اعلیٰ مقام اور بلند حیثیت عطا کی ہے۔ اور یہی بات علماء،عرفاء،حکماء،ادباء اور باریک بین حضرات کے رجحان کا سبب بنی ہے یہی وجہ ہے کہ کتا ب صحیفہ ٔ سجادیہ ابتدائی صدیوں سے اصحاب وعرفاءکی توجہ کا مرکز رہی ہے۔
(1)۔ شیخ مفید اپنی کتاب الارشاد کے باب فضائل و مناقب امام سجاد عليهالسلام میں ناقل ہیں: “و قد روی عنہ فقھاء العامۃ من
العلوم ما لا تحصیٰ کثرۃ و حفظ عنہ من المواعظ و الادعیۃ و فضائل القرآن و الحلال و الحرام و المغازی و الایّام ما ھو مشھور بین العلماء“
(2)۔ نجاشی متوکل کے حالات زندگی میں تحریر کرتے ہیں:
”متوکل بن عمیر بن متوکل، روی عن یحییٰ بن زید دعاء الصحیفۃ“.
امام سجاد عليهالسلام کی دعاؤں کا کتب حدیث خصوصاً کتب اربعہ میں ذکر ہونا اور دعاؤں کی دیگر قدیمی کتابوں میں نقل ہونا در حقیقت صحیفہ ٔ سجادیہ کی طرف علماء کے رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔
شیخ طوسینے اپنی دعاؤں کی کتاب ” المصباح المتہجد“ میں مختلف مناسبتوں سے صحیفہ ٔ سجادیہ کی دعائیں نقل کی ہیں اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ جب بھی کسی امام عليهالسلام کی دعا کو بیان کرتے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ اس امام عليهالسلام کا اسم مبارک بھی لکھتے
ہیں لیکن امام سجاد عليهالسلام کی دعاؤں کا ذکر صرف دعا کے عنوان سے کرتے ہیں۔یہ بات اس چیز کی نشاندہی کرتی ہے کہ امام سجاد عليهالسلام کی دعائیں علما ء کے نزدیک کس قدر مشہور اور معتبر تھیں۔ صحیفہ کے اسمائے گرامی
صحیفہ ٔ سجادیہ” صحیفہٴ کاملہ“ کے نام سےمشہور ہے۔ ابن شھر آشوب نے معالم العلماء میں صحیفہ کو” زبور آل محمد عليهمالسلام “ اور”انجیل اہل بیت عليهمالسلام “کہاہے اور اسے”اخت القرآن“بھی کہا گیا ہے۔صحیفہ” کا ملہ“نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس سےمختصر صحیفہ زیدیوں کے پاس موجود ہے جب کہ اس کے مقابلے میں شیعہ امامیہ کے ہاں عظیم
اور کامل ترین صحیفہ موجود ہے۔
اس کا زبور اور انجیل نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ " زبور " حضرت داؤد عليهالسلام کی کتاب ہے جس میں اکثرمناجات اور دعائیں ہیں اور چوں کہ صحیفہ بھی مناجات اور دعاؤں کی کتاب ہے اس لیے” زبور آل محمد عليهمالسلام “کہتے ہیں۔ ”انجیل“ بھی حضرت عیسیٰ عليهالسلام کی کتاب ہے کہ جس میں حضرت عیسیٰ مسیح عليهالسلام کے مواعظ اور نصیحتیں موجود ہیں۔صحیفہ ٔ سجادیہ میں بھی مؤثر ترین مواعظ موجود ہیں اسی لیےیہ ”انجیل اہل بیت عليهمالسلام “ کے نام سے موسوم ہے۔
صحیفہ کی دعاؤں کی تعداد
صحیفہ کے موجودہ نسخہ
میں 54 دعائیں شامل ہیں حالانکہ صحیفہ ٔ سجادیہ کے مقدمہ میں موجود دعاؤں کی تعداد 75 بیان کی گئی ہے۔ان میں سے گیارہ عدد خود راوی نے گم کیا ہے اور صرف ان میں سے 64 دائیں راوی کے پاس موجود تھی۔ لہٰذا بقیہ دوسری دس عدد دوسرے راویوں سے گم ہوئی ہوگی، لیکن صحیفہ کے دوسرے اسناد میں جو”مطہری“ سے نقل ہوئے ہیں ان میں 75باب دعا میں سے گیارہ باب کے گم ہونے کا کوئی تذکرہ نہیں ہے بلکہ 55 باب کو تفصیل سے ذکرکیا ہے۔
صحیفہ کی حدیث
صحیفہ ٔ سجادیہ کے پہلے راوی”متوکل ابن ہارون“ نے اس کتاب تک کیسے رسائی حاصل کی، اس سلسلہ میں اس کےحصول کے بعض طریقوں کو درج ذیل سطروں میں ذکر کیا جارہاہے۔
متوکل ابن ہارون ناقل ہیں: میں نے یحیی ابن زیدا بن علی عليهالسلام سے ان کے باپ کی شہادت کے بعد ملاقات کی جب
کہ وہ خراسان روانہ ہو رہے تھے۔
یحیی نے پوچھا: تم کہاں سے آ رہے ہو ؟
میں نے کہا:حج کرکے مکہ سے، تو انہوں نے اپنے اہل خانہ، مدینہ میں اپنے چچا زاد بھائیوں اور سب سےزیادہ
حضرت جعفر عليهالسلام ابن محمد عليهالسلام کے بارے میں احوال پرسی کی۔ میں نے انہیں ان کے خاندان اور حضرت جعفر عليهالسلام کے حالات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ حضرت جعفر عليهالسلام آپ کے والد زید ابن علی عليهالسلام کے بارے میں کافی غم زدہ ہیں۔ یحیی نے کہا:میرے چچا محمد عليهالسلام ابن علی عليهالسلام نے میرے والد سے اشارتاً کہا تھا کہ خروج نہ کریں اور اگر خروج کر کے مدینہ سے نکلیں گے تو اس کے انجام کار سے بھی آگاہ کردیا تھا۔
یحیی نے مزید دریافت کیا:کیا تو نے میرے چچا زاد بھائی جعفر عليهالسلام ابن محمد عليهالسلام سے ملاقات کی ہے ؟
میں نے عرض کیا: جی ہاں!
انہوں نے پوچھا:کیا فرما رہے تھے ؟ میں نے عرض کیا: آپ پر قربان جاؤں!میں وہ آپ کے سامنے ا نہیں بتانا چاہتا ہوں جو میں نے ان سے سنا ہے انہوں نے مسکراتےہوئے کہا:
کیا تم مجھے موت سے ڈراتے ہو ؟ جو کچھ سنا ہے بیان کرو؛ میں نے کہا: میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:وہ آپ کو بھی ایسے ہی قتل کرکے سولی پر لٹکائیں گے جیسے آپ کے والد بزرگوارکوقتل کےبعدسولی پر لٹکایا گیا“۔
یہ سن کر ان کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اور فرمایا:
”یمحوا اللہ ما یشاء و یثبت و عندہ اُمّ الکتاب“
اے متوکل!خداوند متعال نے اس امر ( امامت ) کے ذریعے ہماری تائید فرمائی اور ہمارے نصیب میں علم وتلوار قرار دی جب کہ ہمارے چچا زاد بھائیوں کو فقط علم سے نوازا۔ میں نے عرض کیا: میں آپ پر قربان جاؤں! میں نے دیکھا ہے لوگ آپ اور آپ کے والد کی نسبت آپ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر عليهالسلام
کی طرف زیادہ رجحان رکھتے ہیں۔
یحیی نے کہا:بات یہ ہے کہ ہمارے چچا محمد عليهالسلام ابن علی عليهالسلام اور ان
کے فرزند حضرت جعفر عليهالسلام لوگوں کو زندگی کی طرف دعوت دیتے ہیں جب کہ ہم انہیں موت کی طرف بلاتے ہیں۔
میں نے عرض کیا: اے فرزند رسول خدا !کیا وہ حضرات زیادہ علم رکھتے ہیں یا آپ ؟
یہ سن کر تھوڑی دیر سر جھکائے رکھا اور پھر سر اٹھا کر بولے: ہم سب کے پاس علم ہے مگر یہ کہ جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ بھی جانتے ہیں اور جو کچھ وہ جانتے ہیں ہم نہیں جانتے۔
پھر کہنے لگے: کیا تم نے میرے چچا زاد بھائی حضرت جعفر عليهالسلام کےاقوال میں سے کچھ لکھا ہے ؟
میں نے کہا: جی ہاں!
انہوں نے کہا: مجھے دکھاؤ۔
چند مسائل جو میں نے لکھے تھے ان کےسامنے پیش کیے اور ان میں سے ایک وہ دعا بھی تھی جو مجھے حضرت امام جعفر صادق عليهالسلام
نے یہ کہہ کر لکھوائی کہ یہ دعا انہیں ان کے والد حضرت محمد عليهالسلام ابن علی عليهالسلام (محمد باقر عليهالسلام )نے لکھوائی تھی اور یہ بھی بتایا کہ یہ دعا ان کے والد علی عليهالسلام ا بن حسین عليهالسلام کی ایسی دعاہے جو صحیفہٴ کاملہ میں موجود ہے۔
یحیی نے یہ دعا دیکھی
اور کہا کہ اجازت دیتے ہو کہ اس میں سے ایک نسخہ لے لوں ؟ میں نے کہا: اے فرزند رسول ! یہ تووہ چیز ہے جو آپ ہی سے ہم تک پہنچی ہے کیا اس کے لیے بھی آپ کو اجازت لینے کی ضرورت ہے ؟
اس کے بعد فرمایا: ابھی میں آپ کو ایک کامل دعا کا نسخہ دیتا ہوں جسے میرے والد (زید)نے اپنے والد
(علی عليهالسلام ابن الحسین عليهالسلام ) سے یاد کیا اور مجھے نصیحت فرمائی کہ اسے محفوظ رکھوں اور اسےکسی نااہل کے حوالے نہ کروں۔
میں نے اٹھ کر ان کے سر کا بوسہ لیا اور عرض کیا: اے فرزند رسول خدا ! میرا دین آپ حضرات کی محبت
اور اطاعت ہے اور امیدوار ہوں کہ یہی محبت اور اطاعت میری زندگی میں اور میرے مرنے کے بعد بھی سعادت کا باعث بنے گی... ۔
اس کے بعد یحیی نے ایک صندوقچہ منگوایا اور اس میں سے ایک صحیفہ نکالا جو قفل میں بندتھا اور مہر لگی ہوئی تھی انہوں نے مہر کو چوما اور رو تے ہوئے مہر کو توڑا اور قفل کو کھولا پھر صحیفہ کو نکال کر اپنی آنکھوں اور چہرے پر مل کر فرمایا: خدا کی قسم! اے متوکل! اگر تم نے میرے چچا زاد بھائی کا یہ قول نقل نہ کیا ہوتا کہ میں قتل کیا جاؤں گا اور مجھے سولی پر لٹکایا جائے گا تو میں ہرگز یہ تمہارے حوالے نہ کرتا اور اس مسئلے میں بخل سے کام لیتا، لیکن مجھے یقین ہے کہ ان کا قول برحق ہے اور یہ انہوں نے اپنے بزرگوں سے حاصل کیا ہے اور عنقریب یہ بات صحیح
ثابت ہو کر رہے گی۔ لہذا مجھے یہ خوف لاحق ہوا کہ کبھی یہ علم بنی امیہ کے ہاتھوں لگ جائے اوروہ اسے اپنے خزانوں میں چھپا دیں۔ لہذا اب تم اسے لو اور مجھے اس کی حفاظت کی پریشانی سے آزاد کر و ...۔ متوکل یحیی ابن زیدکے قتل کے بعد مدینہ گیا اور حضرت امام جعفر صادق عليهالسلام کی خدمت میں حاضر ہوا
اور وہ صحیفہ جو یحیی نے اس کو دیا تھا امام عليهالسلام کو دکھایا ؛امام عليهالسلام نے صحیفہ کھولا اور فرمایا:
خدا کی قسم! یہ میرے چچا زید کی تحریر ہے اور یہ میرے دادا علی ابن الحسین عليهالسلام کی دعائیں ہیں۔پھر آپ ؑ
نے اپنے بیٹے اسماعیل سے فرمایا:اے اسماعیل! اٹھو! اور وہ دعا لے آؤ جس کی حفاظت کا تمہیں حکم دیا تھا۔
چنانچہ اسماعیل گئے اور ایک صحیفہ اٹھا لائے جو بالکل ویسا ہی تھا جیسا یحیی ابن زید نے مجھے دیا تھا۔
امام جعفرصادق عليهالسلام نے صحیفہ کا بوسہ لیا اور اپنی آنکھوں سے لگاکر فرمایا: یہ میرے والد بزرگوار کا لکھا ہوا اور میرے دادا کا املا ء کروایا ہوا نسخہ ہے۔
میں نے عرض کیا: اے فرزند رسول خدا !اگر آپ کی اجازت ہو تو میں اس صحیفہ کو زید اور یحیی کے صحیفہ سے ملاکر دیکھ لوں۔ حضرت عليهالسلام نے اجازت دی اور فرمایا: میں تجھے اس کا اہل سمجھتا ہوں۔
میں نے دیکھا یہ دونوں صحیفے ایک جیسے ہیں اور ایک دوسرے سے ایک حرف کا بھی اختلاف نہیں پایاجاتا...۔
مصنف: محمدعلی مجد فقیهی