- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: دعا کا ترک کرنا گناہ ہے ۔
- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: سب سے عاجز ترین انسان وہ ہے جو دعا کرنے سے عاجز ہو۔
- رسول اللہؐ صلی الله علیه و آله : شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے پس جس نے بھی میرے مہینے (شعبان) میں روزہ رکھا تو قیامت کے دن ، مَیں اس کا شفیع (شفاعت کرنے والا) ہوں گا۔
- امام صادق علیہ السلام: تمہیں دعا ضرور کرنی چاہیے کیونکہ دعا ہر بیماری سے شفا ہے۔
صحیفۂ سجّادیہ کی شرحیں اور ترجمے
صحیفۂ سجّادیہ کی شرحیں اور ترجمے
صحیفۂ سجّادیہ کی اہمیت اور اعتبار کے پیش نظرعلماء ومحققین نے اسے خاص توجہ دی ہے، اور اس کتاب میں موجود اسلامی معارف کو مدنظر رکھتے ہوئے تاریخ اسلام میں اب تک اس عظیم کتاب کی بہت سی شرحیں لکھی گئی ہیں، آقائے بزرگ تہرانی نے اپنی کتاب ''الذریعہ'' میں اس عظیم کتاب کی ٤۶ شرحوں کی نشاندہی کی ہے جن کی تفصیل مولانا سید علی مجتہد کے اردو ترجمہ کے ملحقات میں موجود ہے ان میں سے اکثر عربی اور چند فارسی میں ہیں۔ ان میں زیادہ معروف سید علی خان کبیر کی شرح'' ریاض السالکین'' سے موسوم ہے( موسسہ در راہ حق)، دیگر شارحین میں محمد باقر بن محمد داماد، ملا محمد تقی مجلسی اول، ملا محمد باقر مجلسی ثانی، اور شیخ بہا جیسے جید علما شامل ہیں۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ ان میں سے اکثر شرحیں 11ویں اور 12 ویں صدی ہجری میں لکھی گئی، لیکن بصدافسوس کہ صحیفہ سجادیہ کی کوئی شرح اردو زبان میں دستیاب نہیں ہے۔
بہت سے علماء نے اس عظیم کتاب کی دعاؤں کا ترجمہ بھی کیا ہے،اردو تراجم میں علامہ سید محمد ہارون ، سید علی مجتہد، علامہ مفتی جعفر حسین، سید مرتضیٰ حسین ، نسیم امروہوی اور علامہ ذیشان جوادی کے نام قابل ذکر ہیں، علامہ سید علی کے ترجمہ میں دیگر علما کے مقدمات شامل ہیں، علامہ مفتی جعفر حسین کے ترجمہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ہر دعا کے اختتام پر اس کے مضمرات کی تشریح کی گئی ہے جو دعا کے عرفانی پہلو کو اجاگر کرتی ہے۔ نسیم امرہوی کے ترجمہ میں دعاؤں کےالفاظ کی تشریح کی گئی ہے، اسی طرح صحیفہ سجادیہ کے بے شمارو فارسی اور دنیا کی دیگر زندہ زبانوں میں بھی ترجمے کئے گئے ہیں۔
صحیفۂ سجّادیہ کی عظمت واہمیت کے پیش نظر کچھ شیعہ علماء نے حدیث کی کتابوں کی چھان بین کی ہے تاکہ امام زین العابدینؑ کی وہ دعائیں بھی جمع کریں جو مشہور صحیفہ میں موجود نہیں ہیں، جس کے نتیجہ میں صحیفہ سجادیہ ثانیہ، ثالثہ و۔۔۔ تحریر ہوئے جنہیں مستدرکات صحیفہ سجادیہ کہا جاتا ہے۔
صحیفہ سجادیہ کے مفاہیم پر ایک نظر :
امام سجاد نے اپنے وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام کی بہت سی خالص تعلیمات کو صحیفۂ سجّادیہ کی دعاؤں کی شکل میں بیان فرمایا ہے ، یہی وجہ ہے کہ صحیفہ سجادیہ کی دعاؤں میں معرفتِ الٰہی ، تخلیقِ کائنات،عالمِ غیب اور فرشتوں،انبیائے کرام کی رسالت ، پیغمبر اکرمﷺ اور اہلبیت علیہم السّلام کے مرتبہ اور منزلت ، اخلاقی محاسن اوربرے اخلاق، انسان کے مختلف حالات ، لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے شیطان کے ہتھکنڈوں ، مختلف ایام کی یاد منانے ، سماجی اور اقتصادی مسائل ، تاریخ اور سیرت ، خدا کی قدرت کے مظاہر کی طرف توجّہ دلانے، خدا کی مختلف نعمتوں کی یاد دہانی اور شکر و سپاس کی ذمّہ داری کا احساس بیدار کرنے، قدرت کی انفسی(اندرونی) اور آفاقی (بیرونی ) نشانیوں کی طرف متوجّہ کرنے ، آدابِ دعا ، تلاوت ، نماز وعبادت کے علاوہ دسیوں دیگر اہم موضوعات بھی جلوہ گر ہیں ، اگرچہ صحیفہ سجادیہ دعاؤں کی ایک کتاب ہے لیکن ان دعاؤں کے مضامین میں دین، اخلاقی اقدار، قرآنی تعلیمات ، عبادت اور بندگی کے آداب کو نہایت حسین انداز سے پیش کیا گیا ہے ۔
اگر صحیفہ کاملہ سجادیہ کی دعاؤں کو عمیق نظر سے دیکھا جائے تو احساس ہوگا کہ ان میں اسرار الٰہی پوشیدہ ہیں اور حضرت امام سجاد علیہ السلام نے دعا اور مناجات کے ضمن میں بہت ہی مختصر لفظوں میں زندگی کے عظیم حقائق کوبیان کیا ہے، آپ نے دعا ومناجات کے انداز میں ایسے بہت سے مسائل کو بیان کیا گیا ہے جو انسان کی زندگی میں بنیادی اور حیاتی کردار رکھتے ہیں ، اور جو انسانی سماج اور زندگی کے لئے بہترین درس ہے، اس بنا پر صحیفہ کاملہ کی دعائیں نور کا ایک منارہ اور معارف کا ایک بے کراںسمندر ہیں،ذیل میں صحیفہ سجادیہ کے مفاہیم پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہوئے مختصر سا جائزہ پیش کرتے ہیں:
١۔ توحید اور خدا سے رابطہ: صحیفہ کاملہ کی دعاؤں میں توحید اور خدا سے رابطہ کے مسائل پر بہت زور دیا گیا ہے، اگرچہ اسلامی معاشرے میں توحید ورسالت وغیرہ کو دین کے بنیادی اصول میں سے شما ر کیا جاتا ہے لیکن اموی دور میں ان بنیادی اصول پر کاری ضرب لگائی جارہی تھی۔ جب علی الاعلان یہ کہا گیا کہ محمدؐ نے حکومت کیلئے ایک کھیل کھیلا تھا وگرنہ نہ کوئی وحی آئی نہ ہی کوئی فرشتہ ؛ ایسے نازک حالات میں امام سجادؑ نے دعا کی صورت میں دین کے بنیادی اصولوں کی تعلیم دی، توحید الہیٰ کے ذکر کی ایک مثال پہلی دعا میں ہے جہاں امام فرماتے ہیں: ''الحمدلّٰلہ الا ول بلا اول و الآخر بلا آخر یکون بعدہ '' (تعریف اس خدا کی جو ایسا اول ہے جس کے پہلے کوئی اول نہ تھااور ایسا آخر جس کے بعد کوئی آخر نہ ہوگا)۔
٢۔اللہ تعالیٰ کی صفات: صفات باری تعالیٰ میں عدل ایک ایسا وصف ہے کہ اگر انسان اس کی ماہیت سمجھ لے تواس کے تمام اعمال میں ایک توازن اور تنازسب قائم رہ سکتا ہے بنی امیہ نے اپنے اعمال اور ظلم کی پردہ پوشی کے لئے یہ عقیدہ پھیلا نا شروع کیا تھا کہ خدا کے لئے عدل ضروری نہیں۔ امام کی دعاؤں میں جابجا خدا کی صفات کا موثر الفاظ میں بیان موجود ہے۔ بالخصوص یوم عرفہ کی دعا اس ضمن میں ایک شاہکار ہے۔
٣۔رسالت اور امامت کا مرتبہ : بنی امیہ نے اپنے ابتدائی دور میں رسولؐ اور عترت رسولؑ کے خلاف سب و ششم کی جو مذموم تحریک شروع کی تھی یزید نے اسے جنگ میں بدل دیا اور سانحہ کربلا و اقع ہوا، لیکن پھر امام نے اپنی دعاؤں کے ذریعہ عترت رسولؑ کی منزلت سے روشناس کرایا، ایک دعا میں ان الفاظ میں محمد اور آل محمدصلىاللهعليهوآلهکی فضیلت کا تذکرہ کیا ہے۔ وجعلتھم و رثتہ الانبیاء وختم بھم الاوصیا والا ئمہ وعلمتھم علم ما کان وما بقی ( اور آل محمدصلىاللهعليهوآلهکو انبیاء کا وارث بنایا، ان پر اولیا اور اماموں کا سلسلہ ختم کیا اور انہیں ماضی حال ، اور مستقبل کا علم عطا کیا۔ )
٤۔ محمد وآل محمد پر درود : صحیفہ سجادیہ کی دعاؤں میں "محمد وآل محمد پر صلوات" کے جملات بہت زیادہ دکھائی دیتے ہیں، بہت سی دعاؤں کے شروع اور آخر میں بھی صلوات کا تکرار ہوا ہے، اور یہ دعائیں اُس زمانے کی ہیں جب بنی امیہ کی طرف سے "علی" نام رکھنا بھی ناقابل معافی جرم شمار کیا جاتا تھا، اور حضرت علی ؑ پر سَب کرنا حکومت کے ساتھ قربت کا ذریعہ تھا، ایسے حالات میں دعاؤں کے درمیان اتنی کثرت سے "محمد وآل محمد پر صلوات" کی تکرار تبلیغی لحاظ سے نہایت اہم مسئلہ ہے۔
٤۔ کائنات میں غور وفکر: قرآن میں جا بجا قدرت کی تخلیقات کی طرف اشارہ ہے، عام آدمی کو منطق اور فلسفہ سے دلچسپی نہیں ہوتی وہ ٹھوس ثبوت چاہتا ہے اسی مناسبت سے امام نے دعا ؤں میں کائنات کے مظہر ، رات اور دن کے وجود ، چاند کی مخصوص مدار میں گردش ، اس کا بڑھنا، گھٹنا، گرہن لگنا، آندھی اور بجلی کا قدرت کا نشانیوں کے طور پر اپنی دعاؤں میں ذکر کیاہے۔ سائنسی ترقی کے نتیجہ میں ان سر بستہ رازوں پر سے پردہ اٹھ رہا ہے اور ان کی صداقت عیاں ہو رہی ہے لیکن سو سال پہلے ان امور پر بحث کرنا اسی کا کام ہے جو علم کائنات جانتا ہو، مرحوم علامہ مفتی جعفر حسین نے سائنسی انکشافات بالخصوص اجرامِ فلکی کے وزن کے متعلق ایک تفصیلی نوٹ دیاہے جو پڑھنے کے لائق ہے۔
٥۔ توبہ و استغفار: جب امام سجاد ؑ کی زبان مبارک سے ادا ہونے والے الفاظ سے صحیفہ سجادیہ ترتیب پا رہا تھا اُس دور میں فسق و فجور عام تھا اور گناہوں کے ارتکاب میں نہ صرف بے شرمی تھی بلکہ دلیری بھی تھی لہذا ضروری تھا کہ امامؑ، نوجوانوں کو توبہ و استغفار، سوزوگداز اورخضوع و خشوع کے راستے دکھائیں جو دعا کی بنیاد اور تقویٰ کی ر وح ہے ۔چنانچہ صحیفہ سجادیہ میں توبہ واستغفار کی بے شمار مثالیں ہیں۔
۶: سیاسی امور سے متعلق دعائیں : امام علیہ السلام نے دعاؤں کے ضمن میں سیاسی امور – خاص طور پر امامت اور امت کی رہبری کے امور – بھی موضوع سخن بنائے ہیں، ذیل میں چند دعاؤں کو نمونہ کے طور پر پیش کرتے ہیں:
1۔ امام سجاد علیہ السلام "دعائے مكارم الاخلاق" میں فرماتے ہیں:
«خدایا! محمد اور آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر درود بھیج اور مجھے ان لوگوں کے مقابل طاقت و قوت عطاکر جو مجھ پر ظلم روا رکھتے ہیں اور ان لوگوں کے خلاف برہان و زبان عطا کر جو میرے ساتھ نزاع اور جھگڑا کرتے ہیں اور ان لوگوں کے مقابل فتح و کامرانی عطا فرما جو میرے ساتھ عناد و عداوت برتتے ہیں اور ان لوگوں کے مقابل راہ و تدبیر عطا کر جو میرے بداندیش ہیں اور میرے خلاف حیلہ گری اور مکر کاسہارا لیتے ہیں اور ان لوگوں کے مقابل مجھے طاقت و قدرت عطا فرما جو مجھے آزار پہنچاتے ہیں اور ان لوگوں کے مقابل قوت تردید عطا فرما جو میری عیب جوئی اور دشنام طرازی کرتے ہیں [تا کہ میں ان کی تہمتوں کو جھٹلا سکوں] اور دشمنوں کے خطرات کے مقابل مجھے امن و سلامتی عطا فرما۔۔۔»
امام سجادؑ کی دعاء کا یہ حصہ در حقیقت اموی حکومت اور عبدالملک کے عُمّال، خاص طور پر مدینہ کے والی «ہشام بن اسماعیل مخزومی» کے ظلم و تشدد اور اس کی دھمکیوں کے مقابل امام علیہ السلام کی شکایت پر مشتمل ہے؛ جو اس دعاء کا سیاسی پہلو شمار ہوتاہے۔
2۔ صحیفہ سجادیہ کی ایک اور دعا میں امام فرماتے ہیں:
- «خدایا! یہ مقام و منزلت [یعنی خلافت اور امامت] تیرے خاص جانشینوں اور برگزیدہ بندوں کے لئے ہے اور یہ مراکز اور ادارے تیرے امناء کے لئے مخصوص ہیں؛ [جن کو تو نے اعلی مقام عطاء کیا ہے مگرستمگروں اور ظالموں [اموی خلفاء]نے ناحق ان پر قبضہ جما رکھا ہے اور انہیں غصب کر رکھا ہے ۔۔۔» پھر فرماتے ہیں: «تیرے برگزیدہ بندے اور خلفاء مغلوب و مقہور ہوچکے ہیں [یعنی خاموشی پر مجبور ہیں] جبکہ دیکھ رہے ہیں کہ تیرے احکام تبدیل کردئیے گئے ہیں؛ تیری کتاب معاشرے کے روزمرہ امور سے باہر کرکے رکھ دی گئی ہے؛ تیرے فرائض اور واجبات تحریف کا شکار ہوچکے ہیں اور تیرے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی سنت و سیرت ترک کردی گئی ہے۔
خدایا! اولین و آخرین میں سے اپنے برگزیدہ بندوں کے دشمنوں اور ان کے اتباع اور پیروکاروں اور ان کے اعمال پر راضی و خوشنود ہونے والوں پر لعنت بھیج اور انہیں اپنی رحمت سے دور فرما۔۔۔۔»(15)۔
اس دعاء میں امام سجاد علیہ السلام صراحت کے ساتھ امامت اور امت کی رہبری کی بات کی ہے جو کہ اہل بیت علیہم السلام کے لئے مختص ہے اور فرمایا کہ یہ عہده ظالموں اور ستمگروں نے غصب کررکھا ہے، اس طرح امام سجادؑ نے دعا کے انداز میں«بنو امیہ کی حکمرانی کی شرعی اور قانونی حیثیت کی نفی کی نیز یہ کہ اس دعاء میں دیگر خلفاء اولین کی مشروعیت پر بھی تنقید محسوس ہوتی ہے۔
3۔ "دعائے عرفہ" میں امام سجادؑ نےفرمایا:
«پروردگارا! درود بھیج خاندان نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم﴾ کے پاک ترین افراد پر جنہیں تو نے امت کی رہبری اور اپنے اوامر کے نفاذ کے لئے منتخب کیا ہے اور انہیں تو نے اپنے علوم کے لئے خزانہ دار، اپنے دین کے لئے نگہبان، روئے زمین پر اپنا جانشین اور اپنے بندوں پر اپنی حجت قراردیا ہے اور اپنی ہی مشیت سے انہیں ہر قسم کی پلیدی اور رجس سے یکبارگی کے ساتھ پاک و مطہر فرما دیا ہے۔۔۔ خدایا! تو نے ہر زمانے میں ایک امام کے ذریعے اپنے دین کی تائید فرمائی ہے اور اس کو تو نے اپنے بندوں کے لئے رہبر و پرچمدار اور کائنات میں مشعل ہدایت قرار دیا ہے، بعد از آں کہ تو نے اس کو غیب کے رابطے کے ذریعے اپنے آپ سے مرتبط و متصل کردیا ہے اور اپنی خوشنودی کا وسیلہ قراردیا ہے اور اس کی پیروی کو لوگوں پر واجب قرار دیا ہے اور لوگوں کو اس کی نافرمانی سے منع فرمایا ہے اور خبردار کیا ہے اور تو نے لوگوں کو حکم دیا ہے کہ اس کے اوامر اور نواہی کی تعمیل کریں اور تو نے ہی مقرر فرمایا ہے کہ کوئی بھی ان سے سبقت نہ لے اور ان سے آگے نہ چلے، اور کوئی بھی ان کی پیروی میں پیچھے نہ رہے [اور ان کی حکم عدولی نہ کرے]۔۔۔»
امام علیہ السلام نے اس دعاء میں رہبران الہی اور خاندان نبوت کے ائمہ کے کردار اور خاص مقام و منزلت سمیت ان کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے نہایت دقیق الفاظ اور جملات کے ذریعے اس زمانے کے حکمرانوں کی حاکمیت کی شرعی و قانونی حیثیت کو نشانہ بناتے ہوئےثابت کیا ہے کہ حکومت کی مشروعیت [قانونی و شرعی جواز] خداوند متعال کے انتخاب سے حاصل ہوتی ہے، نہ طاقت وقدرت کے زور پر اور نہ ہی عوامی بیعت کی بنا پر ۔۔۔
ان مطالب کے علاوہ صحیفہ میں اقتصادیات ، اتحاد بین المسلمین اور دیگر ہزاروں موضوعات سے متعلق امور کے حوالے بھی موجود ہیں، غرض یہ کہ صحیفہ سجادیہ، علوم و معارف کا ایک عظیم خزانہ ہے، یہ قدسی صفات بندہ کی اپنی پوری عبودیت سے مناجات الہیٰ ہے جو تاریک دلوں کو روشنی اور زنگ آلود ضمیر میں نکھار پیدا کرتی ہے۔ پس صحیفہ سجادیہ بارگاہ الہی میں راز و نیاز و مناجات اور بیان حاجات ہی کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ اس کے سیاسی، معاشرتی، ثقافتی اور اعتقادی پہلو بھی ہیں۔



